پاکستان اور اخلاقیات تحریر : اقراء رضوان

تحریر : اقراء رضوان
پاکستان اور اخلاقیات
تحریر : اقراء رضوان
دنیا میں دو ریاستیں ایسی ہیں ۔جو نظریات کی بنا پر بنائی گئی ہیں پاکستان اور اسرائیل
پاکستان 14 اگست 1947 کو بنا جبکہ اسرائیل 14 مئی 1948 کو بنا ۔پاکستان کی آبادی 23 کڑور جبکہ اسرائیل کی آبادی 96لاکھ 43 ہزار ہے۔ جب پاکستان بنا اس وقت قربانیاں دینے والے مجاہد لیڈران کا نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ لیکن یہ نعرہ 76 سال ہوئے ان 76 سالہ دور حکومت میں سوائے کتابوں کے یہ نعرہ کہیں نظر نہ آیا ۔
1949 کی دستورساز اسمبلی ہو ،1956 کا آئین ہو یا 1973 کا آئین جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں نفاذ اسلام کی تحریک ہو یا ریاست مدینہ کا نعرہ سبھی کتابی باتیں نظر آتی ہیں ۔صبر ،ضبط،تحمل، عاجزی ، برداشت، اخلاقیات ،انکساری ، حیا ، تربیت ، ادب ، احترام اور اسلام سب سکالرز کی تقاریر facebook کے صفحات YouTube channel اور نصاب کی اسلامی کتابوں میں ملتا ہے ۔ عملاً ایک ستر سالہ بوڑھی عورت کو نقاب اور عبایہ پہنا کر سڑک پر کھڑا کر دیا جائے ۔تو اس کا x .ray لینے کے لیے 14 سالہ لڑکے سے 90 سالہ قبر میں ٹانگیں لٹکائے تیار نظر آئے گا صرف یہی نہیں سکول جاتی ساتویں جماعت کی لڑکی کو دیکھنے کے لیے مساجد کے باہر ہجوم ملے گا۔ ہر گھر میں تقریباً باپ بیٹے ، ماں بیٹی، بھائی بھائی کے درمیان نوک جھونک چل رہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچے اپنے ماں باپ کو خود سوزی کی دھمکی دیتے ہیں کسی سکول یا کالج میں آفر کوئی استاد اپنے طلباء کو کسی بات پر ڈانٹ دے تو سکول سے چھٹی کے بعد گروپ کی شکل میں اس کا راستہ روک کر اسے بے عزت کیا جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں اسلام سے ذیادہ ہندو ثقافت کی پرچھائی ہے۔کسی بھی شادی بیاہ پیدائش یا فوتگی کی کسی بھی رسم کو لیا جائے آپ کو اسلامی اصولوں سے زیادہ ہندوانہ کلچر کی پرچھائی ملے گی اس سب کی بہتری کے لیے ارباب اختیارات کو زبانی جمع خرچ کی بجائے قوم کی تربیت کرنی ہو گی اس سلسلے میں سب سے پہلے قوم کے اساتذہ کی تربیت ضروری ہے ۔